تحریر: منصور الدین فریدی
عالم اسلام میں جشن کا سماں ہے،،نعرہ تکبیر کی گونج ہے۔کوئی شام بھول گیا ، کوئی یمن۔ کوئی افغانستان کوبھلا بیٹھا اور کوئی ایران ۔کوئی لیبیا کو تو کوئی غزہ کو۔سب کی نظریں ترکی کے استنبول پر ہیں اور زبان پر ’اردوغان‘ زندہ باد کا نعرہ ہے۔ایسا لگ رہا ہے کہ عالم اسلام میں نیا سورج طلوع ہوگیا ہے۔کوئی نیا مسیحا جلوہ افروز ہوگیا ہے۔مسلمانوں کے ”اچھے دن“آگئے۔تمام مسائل دور ہوگئے یا پھر ان کی راہ نکل آئی۔یہ سب کچھ ہورہا ہے ایک چرچ کے پہلے مسجد ،پھر میوزیم اور پھر مسجد میں تبدیل ہونے پر۔وہ بھی کوئی معمولی عبادت گاہ نہیں بلکہ آیا صوفیہ ہےجسے سینٹ صوفیہ اورہگاصوفیہ جیسے مختلف ناموں سے بھی پکارا جاتا رہاہے۔ دنیا کی اس قدیم ترین عمارت کی بنیاد بازنطینی حکمران کونسٹنٹائن اوّل  نے رکھی تھی۔ لیکن یہ عمارت اپنی موجودہ حالت میں شہنشاہ جسٹینین کے دور میں 532ءاور537ءمیں تعمیر کی گئی۔ ایک ہزار سال تک اسے دنیا کے سب سے بڑے گرجے اور عیسائیوں کے مذہبی و روحانی مرکز کی حیثیت حاصل رہی۔1453ءمیں قسطنطنیہ کی عظیم فتح کے بعد سلطان محمد فاتح نے آیاصوفیہ کو مسجد میں تبدیل کردیا تھا، 1453ءسے 1935ءتک، تقریباً 481 سال، آیا صوفیہ کی یہ عظیم عمارت مسجد کی حیثیت سے قائم رہی۔ لیکن پھر جنگ آزادی اور جمہوریہ ترکیہ کے قیام کے بعد مصطفیٰ کمال اتاترک نے آیاصوفیہ کی عجائب گھر میں تبدیل کیا،اب دوبارہ رجب طیب اردوغان نے اس کو دبارہ مسجد میں تبدیل کردیا ہے۔اس واقعہ نے دنیا میں ایک بڑی بحث چھیڑ دی اور عالم اسلام میں اچانک ترکی ’دیو‘ بن گیا۔ اردوغان ’خلیفہ‘کے کردار میں نظر آنے لگے۔ترکی کا بخار اب عالم اسلام کے سر چڑھ کر بول رہا ہے،کل تک مسلمانوں کا قائد کہلانے والا سعودی عرب دور دور تک نہیں،آسان لفظوں میں کہا جائے تو اردوغان طوفان بن گئے مگر اس نے عالم اسلام کے حال اور مستقبل پر پڑی دھول اڑانے کے بجائے ماضی کو چمکا دیا ہے ،جس کی چمک نے مسلمانوں کی آنکھیں چندھیا دی ہیں۔جو اب حال اور مستقبل کے بجائے ماضی کی سنہری یادوں میںغرق ہوگئے ہیںجسے کسی بھی قوم کی سب سے بڑی کمزوری مانا جاتا ہے۔مگرسب سے بڑا سوال یہ ہے کہ درست ہوا یا غلط ؟ اس کا تعلق مذہب سے ہے یا سیاست سے؟اس سے مسلمانوں کو کیا حاصل ہوگا؟کیا اسلام کی روح کے عین مطابق ہے؟یا پھر اسلام کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے؟

Read more...


 

                          تحریر: منصور الدین فریدی

 کرونا نے دنیا کو خون کے آنسو رلا دئیے،کوئی وبا سے مرا تو کوئی وبا کے اثرات سے۔اس میں سب بڑا اثر پڑا ’روزگار ‘ پر۔جس نے لاکھوں بلکہ کروڑوں افراد کو ننگا اور بھوکا کردیا۔ہم سب نے ’لاک ڈاﺅن ‘ کا دور دیکھا ۔مزدوروںکو اپنے گھروں کی جانب بھاگتے ہوئے دیکھا، ایک طبقہ کو راشن کےلئے گڑگڑاتے دیکھا،ایک طبقہ کو اسی آفت میں لوٹ مار کرتے ہوئے دیکھا، وہیں ایک ایسے بڑے طبقہ کو بڑی خاموشی کے ساتھ حالات کا سامنا کرتے ہوئے بھی دیکھا،جس کےلئے ہاتھ پھیلانا اور زبان کھولنا بھی ممکن تھا،جو خالی جیب اور خالی پیٹ ہونے کے باوجود زبان پر مدد کی دوہارنہیں لگا سکتا تھا،اس طبقہ میں ایک تھی”مولوی برادری“۔وہ مولوی حضرات جو ہمارے اور آپ کے گھروں میں بچوں کو قرآن کی تعلیم دینے کےلئے آتے ہیں۔اس برادری نے لاک ڈاﺅن کے بعد سے ابتک پاپڑ بیلے ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے کیونکہ ’ارطغرل غازی‘ کے نشے میں غرق قوم نے لاک ڈاﺅن کے بعد سے ان مولویوں سے ہی منھ موڑ لیا بلکہ ایسا رویہ اختیار کرلیا کہ بچوں کو قرآن پاک کی تعلیم دینے والے مولوی حضرات کو ’عرشی کتاب کا فرشی معلم‘ ہونے کا احساس مار نے لگا ہے،کوئی غیرت اور کوئی شرم کے سبب خاموش تھا ۔جس لاک ڈاﺅن میں قوم پولیس کے ڈنڈوں کا خوف بھلا کر’ گوشت‘ کےلئے گلی گلی’ بو‘ پاتی گھوم رہی تھی وہیں اس کے گھروں میں قرآن کی روشنی پھیلانے والے ’مولوی‘ دال روٹی کےلئے در بدر بھٹک رہے تھے،میں گواہ ہوں ایسے مولویوں کا،چشم دید ہوں ان کے خالی برتنوں کا۔جن بچوں کو یہ مولوی حضرات پڑھاتے رہے، ان کے گھر والے اسکول کی فیس تو دیتے رہے مگر قرآن کی تعلیم دینے والوں سے منھ پھیر تے رہے،افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔

Read more...

                     

تحریر: منصور الدین فریدی
25اگست کی دوپہرکواچانک سوشل میڈیا پر ’آہ و بکا‘ کا دور شروع ہوا،ایک طوفان اٹھا،عبدالقادر شمس نہیں رہے،دہلی میں اردو صحافت کا جانا مانا چہرہ ہمیشہ کےلئے گم ہوگیا۔ وہ کرونا سے جنگ جیت گئے مگر دل کے سامنے گھٹنے ٹیک گئے،تعزیتی پیغامات کا سیلاب آگیا،ماتم برپا ہوگیا،ہر کوئی مرحوم کو اپنے اپنے انداز میں خراج عقیدت پیش کرتا رہا،سب کی زبان پر ایک ہی بات تھی کہ مرحوم کا اخلاق ، خاکساری اور سادگی میں کوئی جواب نہیں تھا۔بلاشبہ وہ ایک شریف النفس انسان تھے،کسی سے لڑائی نہ جھگڑا۔کام سے کام ۔سب کے ساتھ اخلاق کے ساتھ پیش آنا اور انتہائی مہذب انداز میں بات کرنا۔صاف گو۔۔۔با ہمت انسان ۔صاف دل انسان۔جس سے سنئیے کوئی نہ کوئی ذاتی تجربہ بیان کرتا نظر آرہا ہے ،ان کی کسی نہ کسی خوبی کا ذکر کررہا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ ان کی موت کو ہضم یا قبول کرنا مشکل ہورہا ہے،مگر حقیقت یہ بھی ہے کہ اب بس یادیں اور باتیںرہ گئیں۔کچھ دنوں میں سب مگن ہوجائیں گے،ایمان والی بات کروں تو ”اللہ صبر عطا کردے گا‘۔در اصل جب کوئی اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو ہمارا ایمان یہی کہنے پر مجبور کرتا ہے کہ ”موت برحق ہے“۔مگر سوال یہ بھی ہے کہ ’زندگی حق ہے‘تو اس کو کس نے چھینا؟کوئی اس حق سے کیوں محروم ہوا؟وہ کون سے حالات ہوتے ہیں جن میں سب سے قیمتی حق کےلئے انسان کچھ نہیں کر پاتا ہے۔ یہ سوال کو اب عبدا لقادر شمس کی’ موت‘ نے ’زندہ ‘کردیا ہے۔

Read more...

*کریم رضا مونگیری*

 محسن صحافت“ کی رخصتی  
کریم رضا مونگیری’ صحافیوں کے پیارے‘ تھے، اب ’اللہ کو پیارے‘   ہوگئے ، دنیا کو’ الوداع ‘کہہ گئے،خوشیوں کے شہر کو ایک بڑا درددے گئے، بلاشبہ کلکتہ کی اردو صحافت کا ایک ستون گر گیا،ایک اور چراغ  بجھ گیا،ایک اور صحافی گزر گیا لیکن ہم اور آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اردو صحافت کا ایک’ سائبان ‘ نہ رہا ،وہ سائبان جس نے متعدد صحافیوں کو پناہ دی بلکہ ان کا دکھ درد زبانی طور پر نہیں بلکہ عملی طور پردور کیا۔ان کے ’اللہ والے“ ہونے کی سب سے بڑی نشانی یہ تھی کہ وہ ”استحصال‘ کے قائل نہیں تھے ،یہی وجہ ہے کہ وہ اردو صحافت سے زیادہ اردو صحافیوں کی خدمت کر گئے، وہ نہ ’فخر صحافت ‘کہلائے نہ ’بابائے صحافت‘ لیکن ان کی فراخ دلی انہیں کلکتہ کے لاتعداد اردو صحافیوں کےلئے ’بزرگ صحافت‘بنا گئی۔ایک ایسا انسان جو اردو صحافت میں تھا ، ایک اخبار کا مالک تھا اس کے باوجود’بڑے دل والا‘ تھا۔یہی تھی سب سے بڑی خوبی جس کےلئے اہل کلکتہ کریم رضا مونگیری کو کبھی فراموش نہیں کر سکیں گے ۔’عکاس‘کے مدیر کی حیثیت سے کریم رضا مونگیری کا سب سے بڑا کارنامہ یہی رہا کہ کلکتہ کی سرزمین یہ اخبار پچھلے 55سال سے شائع ہورہا ہے۔روزنامہ عکاس نے ان کی ادارت میں گولڈن جبلی منایا۔ان کی موت کے ساتھ کلکتہ کی اردو صحافت اپنے ایک اور بزرگ سے محروم ہوگئی ،متعدد صحافیوں    کو’بے سہارا‘ کر گئی۔

Read more...



       read more

Read more...

SEARCH / TALAASH

Total Pageviews

Contact Form

Name

Email *

Message *

Back to TOP