کرونا نے دنیا کو خون کے آنسو رلا دئیے،کوئی وبا سے مرا تو کوئی وبا کے اثرات سے۔اس میں سب بڑا اثر پڑا ’روزگار ‘ پر۔جس نے لاکھوں بلکہ کروڑوں افراد کو ننگا اور بھوکا کردیا۔ہم سب نے ’لاک ڈاﺅن ‘ کا دور دیکھا ۔مزدوروںکو اپنے گھروں کی جانب بھاگتے ہوئے دیکھا، ایک طبقہ کو راشن کےلئے گڑگڑاتے دیکھا،ایک طبقہ کو اسی آفت میں لوٹ مار کرتے ہوئے دیکھا، وہیں ایک ایسے بڑے طبقہ کو بڑی خاموشی کے ساتھ حالات کا سامنا کرتے ہوئے بھی دیکھا،جس کےلئے ہاتھ پھیلانا اور زبان کھولنا بھی ممکن تھا،جو خالی جیب اور خالی پیٹ ہونے کے باوجود زبان پر مدد کی دوہارنہیں لگا سکتا تھا،اس طبقہ میں ایک تھی”مولوی برادری“۔وہ مولوی حضرات جو ہمارے اور آپ کے گھروں میں بچوں کو قرآن کی تعلیم دینے کےلئے آتے ہیں۔اس برادری نے لاک ڈاﺅن کے بعد سے ابتک پاپڑ بیلے ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے کیونکہ ’ارطغرل غازی‘ کے نشے میں غرق قوم نے لاک ڈاﺅن کے بعد سے ان مولویوں سے ہی منھ موڑ لیا بلکہ ایسا رویہ اختیار کرلیا کہ بچوں کو قرآن پاک کی تعلیم دینے والے مولوی حضرات کو ’عرشی کتاب کا فرشی معلم‘ ہونے کا احساس مار نے لگا ہے،کوئی غیرت اور کوئی شرم کے سبب خاموش تھا ۔جس لاک ڈاﺅن میں قوم پولیس کے ڈنڈوں کا خوف بھلا کر’ گوشت‘ کےلئے گلی گلی’ بو‘ پاتی گھوم رہی تھی وہیں اس کے گھروں میں قرآن کی روشنی پھیلانے والے ’مولوی‘ دال روٹی کےلئے در بدر بھٹک رہے تھے،میں گواہ ہوں ایسے مولویوں کا،چشم دید ہوں ان کے خالی برتنوں کا۔جن بچوں کو یہ مولوی حضرات پڑھاتے رہے، ان کے گھر والے اسکول کی فیس تو دیتے رہے مگر قرآن کی تعلیم دینے والوں سے منھ پھیر تے رہے،افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
Read more...